صفحات

Welcome to my book blog!

ہفتہ، 4 فروری، 2017

دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا مرزا غالب


دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا       مرزا غالب

دھمکی میں مر گیا جو نہ باب نبرد تھا
عشق نبرد پیشہ طلب گار مرد تھا
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
تالیف نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا
دل تا جگر کہ ساحل دریائے خوں ہے اب
اس رہ گزر میں جلوۂ گل آگے گرد تھا
جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہ عشق کی
دل بھی اگر گیا تو وہی دل کا درد تھا
احباب چارہ سازی وحشت نہ کر سکے
زنداں میں بھی خیال بیاباں نورد تھا
یہ لاش بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

پیر، 30 جنوری، 2017

نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا مرزا غالب


نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا

مرزا غالب


    نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
    کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
    کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
    صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
    جذبۂ بے اختیار شوق دیکھا چاہئے
    سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
    آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
    مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
    بسکہ ہوں غالبؔ اسیری میں بھی آتش زیر پا
    موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
    آتشیں پا ہوں گداز وحشت زنداں نہ پوچھ
    موئے آتش دیدہ ہے ہر حلقہ یاں زنجیر کا
    شوخیٔ نیرنگ صید وحشت طاؤس ہے
    دام سبزہ میں ہے پرواز چمن تسخیر کا
    لذت ایجاد ناز افسون عرض ذوق قتل
    نعل آتش میں ہے تیغ یار سے نخچیر کا
    خشت پشت دست عجز و قالب آغوش وداع
    پر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا
    وحشت خواب عدم شور تماشا ہے اسدؔ
    جو مزہ جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا

    VIDEOS

    طلعت محمود

    طلعت محمود

    ذوالفقار علی بخاری

    ذوالفقار علی بخاری

    RECITATIONS

    فصیح اکمل

    فصیح اکمل

    2

    1

    12

    Subscribe to our newsletter