صفحات

جمعرات، 26 جنوری، 2017

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے شیخ ابراہیم ذوقؔ


اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

شیخ ابراہیم ذوقؔ

    اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
    مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
    تم نے ٹھہرائی اگر غیر کے گھر جانے کی
    تو ارادے یہاں کچھ اور ٹھہر جائیں گے
    خالی اے چارہ گرو ہوں گے بہت مرہم داں
    پر مرے زخم نہیں ایسے کہ بھر جائیں گے
    پہنچیں گے رہ گزر یار تلک کیوں کر ہم
    پہلے جب تک نہ دو عالم سے گزر جائیں گے
    شعلۂ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں
    پر مجھے ڈر ہے کہ وہ دیکھ کے ڈر جائیں گے
    ہم نہیں وہ جو کریں خون کا دعویٰ تجھ پر
    بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائیں گے
    آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی
    جب یہ عاصی عرق شرم سے تر جائیں گے
    نہیں پائے گا نشاں کوئی ہمارا ہرگز
    ہم جہاں سے روش تیر نظر جائیں گے
    سامنے چشم گہر بار کے کہہ دو دریا
    چڑھ کے گر آئے تو نظروں سے اتر جائیں گے
    لائے جو مست ہیں تربت پہ گلابی آنکھیں
    اور اگر کچھ نہیں دو پھول تو دھر جائیں گے
    رخ روشن سے نقاب اپنے الٹ دیکھو تم
    مہر و ماہ نظروں سے یاروں کی اتر جائیں گے
    ہم بھی دیکھیں گے کوئی اہل نظر ہے کہ نہیں
    یاں سے جب ہم روش تیر نظر جائیں گے
    ذوقؔ جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں ملا
    ان کو مے خانے میں لے آؤ سنور جائیں گے

    VIDEOS

    سدیپ بنرجی

    سدیپ بنرجی

    ٹینا ثانی

    ٹینا ثانی

    جگجیت سنگھ

    جگجیت سنگھ

    RECITATIONS

    نعمان شوق

    نعمان شوق

    کوئی تبصرے نہیں:

    ایک تبصرہ شائع کریں

    2

    1

    12

    Subscribe to our newsletter